فہمِ دین اور نبی کی زات۔

سانول عباسی۔

علماء و مشائخ سبھی انسان تھے کوئی مافوق الفطرت ہستیاں نہیں تھے ان کا فہم کوئی حرف آخر نہی12898376_10206400672995389_1192791482502771933_oں تھا دین میں جتنی آزادی سوچنے سمجھنے کی ان کو حاصل تھی ہر شخص کو اتنی آزادی کا حق حاصل ہے فلاں صاحب نے یہ فرمایا، فلاں صاحب کا فہم یہ ہے، فلاں صاحب نے ایسے کہا یا ایسے کیا، تو عرض یہ ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں کسی عالم و فاضل انسان کے نہیں، بلکہ وہ بھی ہماری طرح محتاج تھے اور ہیں وہ طالبِ حق تھے اور اللہ نے ان کی رہنمائی فرمائی اور اللہ اس کا ان کو صلہ عطا فرمائے گا اور یہ فارمولا سب کے لئے ہے۔

خدارا سمجھئے! اپنی سوچ کا کسی عالم کی سوچ سے مطابقت اس بات کا غماز نہیں کہ فریقِ مخالف کی سوچ یکسر کذب بیانی یا غیر فطری ہے اسی لئے دین میں معیار کوئی عام انسانی فہم نہیں اور نہ ہی ہو سکتا ہے معیار کا تعین مالک نے کرنا ہے جس سے دین منسوب ہے اور وہ اس کا کسی کو حق بھی نہیں دیتا کہ کوئی معیار جو اس نے متعین کیا ہے اس کے علاوہ کسی اور کو معیار سمجھے یا بنائے حتکہ اس نے یہ حق اس معیار اس پیمانے کو بھی نہیں دیا کہ وہ اس کی منشاء کے بغیر اپنی طرف سے کسی چیز کو پیش کرے اور کہے کہ یہ میرا حکم ہے۔

کلام اللہ کے ضمن میں معیار کا تعین انتہائی اہمیت کا حامل اور لازم ہے جب ہر انسان سوچ سکتا ہے اور جہاں انسانوں میں اتنی مسابقت اور غلط و صحیح کی دونوں اشکالات موجود ہوں تو کس بات کو حوالہ بنا کر فیصلہ کیا جائے کہ فلاں سوچ فہم درست ہے اور فلاں خلافِ انسانیت و غلط ہے تو اس کے لئے اللہ رب العزت نے پیمانہ وضع کر کے انسانوں پہ اپنی حجت تمام کر دی۔

اب بات آتی ہے جب کلام اللہ کی عملی تعبیر کی، پیمانے کی، اس معیار کی، کہ معیار کیا ہے کس کو اللہ نے معیار مقرر کیا ہے تو وہ بھی اللہ رب العزت نے علی الاعلان واشگاف انداز میں واضح کر دیا ہے اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں کہ جس نے سمجھنا ہو، عمل کرنا ہو، ماننا ہو، وہ اس سمجھانے والے کی سمجھ سے فہم لے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، عالم انسانیت کے لئے کلام اللہ کے ضمن میں پیمانہ ہے ہم کہاں آزاد ہیں، کہاں پابند ہیں، ہماری فکر، ہمارا عمل، اگر اس پیمانے سے مطابقت ہے تو سمجھو کامیاب ہوئے ۔

اسلام نے شخصیت پرستی کا جس شد و مد کے ساتھ کیا قلع قمع کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی قربان جائیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنہوں نے انسانوں کی غلامی سے نکال کر خالصتاً اللہ کے بندے بننے کی نہ صرف رہنمائی کی بلکہ ہر حوالے سے انتہائی تاکید بھی کی اور اپنی شخصیت کو بھی اس سے پرے رکھا کہ کہیں لوگ ان کی عبادت نہ شروع کر دیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اطاعت و اتباع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شخصیت پرستی کے زمرے میں آتا ہے ایسا نہیں، یہ شخصیت پرستی نہیں بلکہ ایک اسلوب ہے جو اللہ رب العزت نے انسانوں میں سے نبوت کے ذریعے انسانوں پہ آشکار کیا ہے وگرنہ انسان پھر گم گشتہ راہ ہو جاتا۔ اللہ نے اپنی بندگی و عبادت کہا ہی اسی اسلوب کو ہے جو طریقِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے اس کے علاوہ جو بھی ہے گمراہی ہے۔

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿3/31﴾